
ننھے مائیکروبز اور ہمارا عجیب و غریب ذوق: ایک سائنس کہانی
تاریخ: 20 جون 2025، بوقت 16:38
از: ہارورڈ یونیورسٹی (The Harvard Gazette)
دوستو، آج ہم ایک بہت ہی دلچسپ موضوع پر بات کرنے والے ہیں جس کا تعلق ان چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ہے جنہیں ہم عام طور پر اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ ہیں مائیکروبز! ہاں، وہی ننھے جانور جو ہر جگہ موجود ہیں – ہمارے ہاتھوں پر، ہمارے کمروں میں، ہوا میں، پانی میں، اور یہاں تک کہ ہمارے پیٹ میں بھی! ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک بہت ہی زبردست تحقیق کی ہے جس نے ہمیں مائیکروبز کے بارے میں ایک نئی اور حیرت انگیز بات بتائی ہے۔
کیا ہم مائیکروبز کو چکھ سکتے ہیں؟
کبھی سوچا ہے کہ کیوں کچھ کھانے کے ذائقے ہمیں اچھے لگتے ہیں اور کچھ برے؟ یا کیوں کبھی کبھی ہمیں عجیب سا احساس ہوتا ہے جب ہم کوئی نیا کھانا کھاتے ہیں؟ سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ ہمارا جسم، خاص طور پر ہمارا منہ، ان ننھے مائیکروبز کو "چکھنے” کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جی ہاں، یہ کوئی عام چکھنا نہیں ہے، بلکہ ایک خاص قسم کا احساس ہے۔
یہ کیسے کام کرتا ہے؟
ہمارے منہ میں بہت سارے چھوٹے چھوٹے ریسیپٹرز (receptors) ہوتے ہیں۔ یہ ریسیپٹرز بالکل چھوٹے چھوٹے انگلیوں کی طرح ہیں جو مختلف چیزوں کو محسوس کرتے ہیں۔ جب مائیکروبز ہمارے منہ میں آتے ہیں، تو وہ ان ریسیپٹرز سے ٹکراتے ہیں۔ یہ ریسیپٹرز پھر دماغ کو پیغام بھیجتے ہیں کہ "دیکھو! یہ فلاں قسم کا مائیکروب ہے!”
ہمارا جسم اپنے دوستوں کو کیسے پہچانتا ہے؟
اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے جسم میں کچھ ایسے مائیکروبز ہوتے ہیں جو ہمارے لیے بہت فائدے مند ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں کھانا ہضم کرنے میں مدد کرتے ہیں، ہمیں بیمار ہونے سے بچاتے ہیں، اور ہماری صحت کو بہتر بناتے ہیں۔ ہمارا جسم ان "اچھے” مائیکروبز کو پہچاننا سیکھ لیتا ہے۔ جب یہ اچھے مائیکروبز ہمارے منہ میں آتے ہیں، تو ہمارے ریسیپٹرز انہیں ایک خوشگوار احساس دیتے ہیں، جیسے کوئی میٹھا ذائقہ۔ اسی لیے ہمیں کبھی کبھی وہ چیزیں کھانے کا دل کرتا ہے جن میں ایسے مفید مائیکروبز موجود ہوں۔
اور دشمنوں کا کیا؟
لیکن، کچھ مائیکروبز ہمارے دشمن بھی ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں بیمار کر سکتے ہیں۔ جب ایسے "برے” مائیکروبز ہمارے منہ میں آتے ہیں، تو ہمارے ریسیپٹرز کو ایک ناگوار احساس ہوتا ہے، جیسے کوئی کڑوا یا ترش ذائقہ۔ یہ ہمارا جسم کا انہیں پہچاننے اور ان سے بچنے کا ایک طریقہ ہے۔ جیسے ہی ہمیں یہ برا احساس ہوتا ہے، ہم فوراً وہ چیز منہ سے نکال دیتے ہیں یا تھوک دیتے ہیں۔
مائیکروبز اور ہمارا کھانا
یہ تحقیق ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہم جو کھانا کھاتے ہیں، اس کا تعلق ان مائیکروبز سے بہت گہرا ہے۔ مثال کے طور پر، دہی ایک ایسا کھانا ہے جس میں بہت سے فائدے مند مائیکروبز ہوتے ہیں۔ جب ہم دہی کھاتے ہیں، تو ہمارے منہ کے ریسیپٹرز انہیں خوشگوار محسوس کرتے ہیں، اسی لیے ہمیں دہی کا ذائقہ اچھا لگتا ہے۔
بچوں اور طلباء کے لیے پیغام:
یہ سب سن کر کیسا لگا؟ حیران کن ہے نا؟ ہمارے ارد گرد اتنی چھوٹی دنیا موجود ہے جو ہماری صحت اور ہمارے ذوق پر اثر انداز ہوتی ہے۔ سائنسدان مسلسل نئی نئی چیزیں دریافت کر رہے ہیں جن سے ہمیں اپنے جسم اور اپنی دنیا کو بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
اس تحقیق سے ہم یہ سیکھ سکتے ہیں کہ:
- سائنس دلچسپ ہے: سائنس صرف کتابوں میں نہیں، بلکہ ہمارے ارد گرد ہر چیز میں چھپی ہے۔
- ننھے جاندار بھی اہم ہیں: وہ مائیکروبز جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے، وہ بھی ہماری زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
- ہماری دلچسپی ہمیں سکھاتی ہے: جب ہم چیزوں کے بارے میں سوال پوچھتے ہیں اور ان کے جواب ڈھونڈتے ہیں، تو ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
تو دوستو، اگر آپ کو بھی سائنس میں دلچسپی ہے، تو اپنے ارد گرد موجود چھوٹی چھوٹی چیزوں پر غور کریں۔ سوال پوچھیں، تحقیق کریں، اور آپ بھی ایسے ہی دلچسپ رازوں کو دریافت کر سکتے ہیں! سائنس آپ کا انتظار کر رہی ہے!
اے آئی نے خبریں فراہم کر دی ہیں۔
گوگل جیمینائی سے جواب حاصل کرنے کے لیے درج ذیل سوال استعمال کیا گیا تھا:
2025-06-20 16:38 کو، Harvard University نے ‘A taste for microbes’ شائع کیا۔ براہ کرم متعلقہ معلومات کے ساتھ ایک تفصیلی مضمون تحریر کریں، جو بچوں اور طلباء کے لیے آسان زبان میں ہو، تاکہ مزید بچوں کو سائنس میں دلچسپی لینے کی ترغیب ملے۔ براہ کرم مضمون صرف اردو میں فراہم کریں۔