قدیم یونانی ڈراموں میں چھپا جدید خوف: ہاورڈ کے محققین نے کیا دلچسپ دریافت کی؟,Harvard University


قدیم یونانی ڈراموں میں چھپا جدید خوف: ہاورڈ کے محققین نے کیا دلچسپ دریافت کی؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ ہزاروں سال پرانے ڈراموں میں بھی آج کے خوفناک فلموں جیسا ہی کچھ پوشیدہ ہے؟ جی ہاں، ہاورڈ یونیورسٹی کے کچھ ذہین محققین نے حال ہی میں ایک ایسی حیران کن بات دریافت کی ہے جو ہمیں قدیم یونانی ڈراموں اور آج کے ہارر فلموں کے درمیان ایک گہرا تعلق دکھاتی ہے۔ یہ خبر 30 جولائی 2025 کو شائع ہوئی تھی اور اس کا عنوان ہے "From tragedy to ‘Ecstasy’”।

قدیم یونانی ڈرامے کیا ہیں؟

بہت پرانے زمانے میں، یونان میں لوگ تھیٹر میں جا کر ڈرامے دیکھتے تھے۔ یہ ڈرامے عام کہانیوں سے بہت مختلف ہوتے تھے۔ ان میں زیادہ تر ایسے واقعات دکھائے جاتے تھے جو دکھ، تکلیف اور خوفناک ہوتے تھے۔ ان ڈراموں کو ‘ٹرجڈی’ (Tragedy) کہتے ہیں۔ ان میں دیوتا، ہیرو اور عام لوگ ایسی مشکلات میں پھنس جاتے تھے جن سے نکلنا ان کے بس میں نہیں ہوتا تھا۔ یہ ڈرامے عام طور پر لوگوں کو گہری باتیں سوچنے پر مجبور کرتے تھے، جیسے قسمت کیا ہے، انسان کی کمزوریاں کیا ہیں، اور برائی کیا ہوتی ہے۔

نیا کیا پتہ چلا؟

ہاورڈ کے محققین نے ان پرانے ڈراموں کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ان ڈراموں میں جس طرح کی خوفناک صورتحال، جذباتی انتشار، اور انسان کی نفسیات کے پیچیدہ پہلو دکھائے جاتے تھے، وہ بالکل ویسے ہی ہیں جیسے آج کل کی ہارر فلموں میں ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر، یونانی ڈراموں میں اکثر ایسے کردار ہوتے تھے جو کسی ایسی بدقسمتی کا شکار ہو جاتے تھے جس کی وہ وجہ نہیں بنتے، یا انہیں ایسے فیصلے کرنے پڑتے تھے جن کے نتائج بہت خوفناک ہوتے تھے۔ یہ ہمیں آج کی فلموں میں دکھائے جانے والے کرداروں کی یاد دلاتا ہے جو کسی پراسرار قوت کے ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں یا خوفناک واقعات کا سامنا کرتے ہیں۔

‘Ecstasy’ کا مطلب کیا ہے؟

یہاں ‘Ecstasy’ کا مطلب صرف خوشی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک شدید جذباتی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یونانی ڈراموں میں جب لوگ خوفناک مناظر دیکھتے تھے، تو وہ ایک عجیب سی جذباتی حالت میں چلے جاتے تھے۔ ان کے دل زور زور سے دھڑکنے لگتے، وہ حیران رہ جاتے، اور کبھی کبھی خوف سے چیخ بھی اٹھتے۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ کیفیت آج کی ہارر فلمیں دیکھتے وقت بھی محسوس ہوتی ہے۔ جب ہم کوئی خوفناک فلم دیکھ رہے ہوتے ہیں، تو ہم بھی جذباتی طور پر اس میں ڈوب جاتے ہیں، ہمارا دل زور سے دھڑکتا ہے، اور ہم ڈر یا حیرت محسوس کرتے ہیں۔

سائنس سے دلچسپی کیسے بڑھے؟

یہ دریافت ہمیں بتاتی ہے کہ سائنس اور انسانی جذبات کا تعلق بہت پرانا ہے۔

  1. تخیل اور تخلیقی صلاحیت: یہ جاننا کہ ہزاروں سال پہلے بھی لوگ ایسی کہانیاں سوچ سکتے تھے جو آج بھی ہمیں خوفزدہ کرتی ہیں، ہماری تخلیقی صلاحیت کو بڑھاتا ہے۔ سائنس ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ انسان کا ذہن کس طرح کام کرتا ہے اور کس طرح نئی چیزیں ایجاد کرتا ہے۔

  2. نفسیات کا مطالعہ: یہ جاننا کہ لوگ کیوں ڈرتے ہیں، اور خوف ان پر کیا اثر کرتا ہے، نفسیات کا اہم حصہ ہے۔ سائنس ہمیں ان جذبات کی جڑوں تک پہنچنے اور انہیں سمجھنے کا موقع دیتی ہے۔

  3. تاریخ اور سائنس کا ملاپ: یہ دریافت ثابت کرتی ہے کہ تاریخ صرف پرانی باتیں نہیں، بلکہ وہ ہمیں آج کی دنیا کو سمجھنے میں بھی مدد دے سکتی ہے۔ جب ہم تاریخ کے فن اور ادب کو سائنس کے نظریے سے دیکھتے ہیں، تو ہمیں نئے اور دلچسپ پہلو نظر آتے ہیں۔

بچوں اور طلباء کے لیے پیغام:

پیارے بچو اور نوجوان دوستو! یہ جان کر آپ کو کیسا لگا کہ وہ ڈرامے جو سینکڑوں سال پہلے لکھے گئے تھے، آج کی خوفناک فلموں سے ملتے جلتے ہیں؟ یہ سب سائنس کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے کہ ہم پرانی چیزوں کا تجزیہ کر سکتے ہیں اور ان میں چھپے رازوں کو جان سکتے ہیں۔

اگر آپ بھی ان گہری باتوں کو سمجھنا چاہتے ہیں، اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ انسان کا ذہن کیسے کام کرتا ہے، اور اگر آپ تاریخ، ادب، اور سائنس کے درمیان تعلق کو دریافت کرنا چاہتے ہیں، تو سائنس آپ کے لیے ایک بہترین راستہ ہے۔ یہ آپ کو دنیا کو ایک نئے اور دلچسپ انداز سے دیکھنے کی صلاحیت دے گی۔ تو، سائنس کو اپنا دوست بنائیں اور نئی تحقیقات کے لیے تیار ہو جائیں!


From tragedy to ‘Ecstasy’


اے آئی نے خبریں فراہم کر دی ہیں۔

گوگل جیمینائی سے جواب حاصل کرنے کے لیے درج ذیل سوال استعمال کیا گیا تھا:

2025-07-30 15:58 کو، Harvard University نے ‘From tragedy to ‘Ecstasy’’ شائع کیا۔ براہ کرم متعلقہ معلومات کے ساتھ ایک تفصیلی مضمون تحریر کریں، جو بچوں اور طلباء کے لیے آسان زبان میں ہو، تاکہ مزید بچوں کو سائنس میں دلچسپی لینے کی ترغیب ملے۔ براہ کرم مضمون صرف اردو میں فراہم کریں۔

Leave a Comment