
دواؤں کی دنیا: کیا سب کے لیے دوائیں بن رہی ہیں؟
تاریخ: 25 جولائی 2025
مقام: سٹینفورڈ یونیورسٹی
پیارے دوستو، کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ہمیں جو دوائیں ملتی ہیں، وہ کیسے بنتی ہیں؟ اور کیا یہ دوائیں سب کے لیے، امیر اور غریب، سب کے لیے برابر ہیں؟ آج ہم سٹینفورڈ یونیورسٹی کی ایک بہت اہم رپورٹ کے بارے میں بات کریں گے جو اسی بارے میں ہے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کی خاص رپورٹ
سٹینفورڈ یونیورسٹی، جو سائنس اور تعلیم کا ایک بڑا مرکز ہے، نے حال ہی میں ایک نئی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کا نام ہے "مارکیٹ سے چلنے والی دواسازی کی ترقی کے نقصانات کو دور کرنے کے لیے ماہرانہ حکمت عملی” (Expert strategies to address the harms of market-driven drug development)۔ اس رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اکثر دوائیں اس طرح سے بنائی جاتی ہیں کہ جن سے کمپنیاں زیادہ پیسہ کما سکیں۔
مسئلہ کیا ہے؟
سوچئے، اگر آپ ڈاکٹر ہیں اور آپ کو کسی ایسی بیماری کا علاج ڈھونڈنا ہے جو بہت سے غریب لوگوں کو ہو رہی ہو، تو کیا کوئی بڑی دوا کمپنی اس پر بہت سارے پیسے خرچ کرے گی؟ شاید نہیں، کیونکہ وہ بیماریاں جن میں لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے، ان کے لیے دوائیں بنانے سے کمپنیوں کو اتنا منافع نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت سی بیماریاں جنہیں "نظر انداز کی جانے والی بیماریاں” (neglected diseases) کہا جاتا ہے، ان کے لیے بہت کم دوائیں موجود ہیں۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جو اکثر غریب ممالک میں یا غریب لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان بیماریوں پر تحقیق کرنے اور ان کے لیے دوائیں بنانے میں بہت زیادہ خرچ آتا ہے، اور جب فائدہ کم ہو تو کمپنیاں اس میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتیں۔
دواسازی کا بازار اور صحت میں فرق
فرض کیجئے کہ آپ کو ایک نئی اور بہت ہی دلچسپ گیند بنانی ہے جو ہوا میں اڑتی ہو اور خود واپس بھی آجائے۔ یہ بنانے میں بہت مشکل اور مہنگا ہے۔ اب، اگر آپ یہ گیند زیادہ قیمت پر بیچ سکیں تو یقیناً آپ اسے بنانا چاہیں گے۔ دواسازی کی کمپنیاں بھی اسی طرح سوچتی ہیں۔ وہ ایسی دوائیں بنانا چاہتی ہیں جنہیں وہ اونچے داموں پر بیچ سکیں اور ان کا منافع زیادہ ہو۔
لیکن، جب بیماریاں ایسی ہوں جن کا علاج سب کے لیے ضروری ہو، لیکن لوگ اسے خرید نہ سکیں، تو کمپنیاں ان بیماریوں پر تحقیق کرنے سے گریزاں رہتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ دوائیں جو سب سے زیادہ ضرورت والے لوگوں تک پہنچنی چاہئیں، وہ یا تو بنتی ہی نہیں یا بہت کم بنتی ہیں۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کیا کہتے ہیں؟
رپورٹ میں ماہرین نے کچھ اہم باتیں بتائی ہیں:
- ضرورت کے حساب سے دوائیں بنانا: ماہرین چاہتے ہیں کہ دوائیں اس طرح سے تیار کی جائیں کہ وہ لوگوں کی اصل صحت کی ضروریات کو پورا کریں، نہ کہ صرف زیادہ منافع کمانے کے لیے۔
- غریبوں کے لیے دوائیں: ان کا کہنا ہے کہ ایسی بیماریوں پر تحقیق کو فروغ دینا چاہیے جو زیادہ تر غریب ممالک میں پائی جاتی ہیں اور جن کے لیے اب تک کوئی خاص دوا موجود نہیں۔
- سرکاری مدد: حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ایسی کمپنیوں کو پیسے یا دوسری مدد دیں جو غریبوں کی بیماریوں کے لیے دوائیں بناتی ہیں۔
- تحقیق میں تبدیلی: تحقیق کا طریقہ کار بدلا جائے تاکہ نئی اور سستی دوائیں بنائی جا سکیں۔
ہم اور سائنس
یہ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ سائنس صرف نئے کھلونے یا تیز رفتار گاڑیاں بنانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ انسانوں کی زندگیوں کو بچانے اور بہتر بنانے کے لیے بھی ہے۔ یہ ہم سب کے لیے سوچنے کا موقع ہے کہ سائنس کو کس طرح استعمال کیا جائے تاکہ دنیا میں کوئی بھی شخص بیماری کی وجہ سے پریشان نہ ہو۔
آپ کیا کر سکتے ہیں؟
بچو، جب آپ سائنس پڑھتے ہیں تو آپ دنیا کو بدلنے کی طاقت حاصل کرتے ہیں۔ اگر آپ سائنس میں دلچسپی لیتے ہیں، تو آپ خود بھی مستقبل میں ایسے ڈاکٹر، سائنسدان، یا محقق بن سکتے ہیں جو سب کی صحت کا خیال رکھیں۔
- سوال پوچھیں: جب آپ سائنس کے بارے میں کچھ پڑھیں یا سنیں، تو اس کے بارے میں سوال پوچھنے سے نہ گھبرائیں۔
- جانیے: دنیا میں کون سی بیماریاں ہیں جن کا کوئی علاج نہیں؟ اور کیوں؟
- اشتراک کریں: اپنے دوستوں اور خاندان والوں کو اس بارے میں بتائیں تاکہ وہ بھی جان سکیں۔
یاد رکھیں، سائنس کا مقصد صرف ایجادات کرنا نہیں، بلکہ ایک بہتر اور صحت مند دنیا بنانا ہے۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی کی یہ رپورٹ اسی اہم مقصد کی طرف ایک قدم ہے۔
Expert strategies to address the harms of market-driven drug development
اے آئی نے خبریں فراہم کر دی ہیں۔
گوگل جیمینائی سے جواب حاصل کرنے کے لیے درج ذیل سوال استعمال کیا گیا تھا:
2025-07-25 00:00 کو، Stanford University نے ‘Expert strategies to address the harms of market-driven drug development’ شائع کیا۔ براہ کرم متعلقہ معلومات کے ساتھ ایک تفصیلی مضمون تحریر کریں، جو بچوں اور طلباء کے لیے آسان زبان میں ہو، تاکہ مزید بچوں کو سائنس میں دلچسپی لینے کی ترغیب ملے۔ براہ کرم مضمون صرف اردو میں فراہم کریں۔