سربرینیتسا، 30 سال بعد: اقوام متحدہ کے عہدیدار اور متاثرین سچائی، انصاف اور چوکسی کا مطالبہ کرتے ہیں,Human Rights


سربرینیتسا، 30 سال بعد: اقوام متحدہ کے عہدیدار اور متاثرین سچائی، انصاف اور چوکسی کا مطالبہ کرتے ہیں

تحریر: انسانی حقوق اشاعت: 8 جولائی 2025، 12:00 بجے

آج سے 30 سال پہلے، 1995 کے جولائی میں، سربرینیتسا، بوسنیا اور ہرزیگوینا میں ایک ایسا المناک باب رقم ہوا جس کی یاد آج بھی انسانیت کے سینے پر گہرا زخم ہے۔ سربرینیتسا کا سانحہ، جو یورپ میں دوسرے عظیم تر جنگ کے دوران پیش آیا، تاریخ کا ایک تاریک باب ہے جہاں تقریباً 8,000 بوسنیائی مسلمانوں مردوں اور لڑکوں کو منظم طریقے سے قتل کیا گیا۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ انسانی زندگیوں کا ایسا سمندر تھا جو اس ظلم و بربریت کی نذر ہو گیا۔

اس المناک یادگاری دن پر، اقوام متحدہ کے عہدیداروں اور ان زندہ بچ جانے والے افراد نے جو اس ظلم و تشدد کے چشم دید گواہ تھے، سچائی، انصاف اور مستقل چوکسی پر زور دیا ہے۔ ان کی آوازیں صرف ماضی کے صدمات کی گونج نہیں، بلکہ مستقبل کے لیے ایک انتباہ بھی ہیں، تاکہ ایسی ہولناکیوں کو دوبارہ رونما ہونے سے روکا جا سکے۔

حقائق اور تناظر

1992 سے 1995 تک جاری رہنے والی بوسنیائی جنگ کے دوران، سربرینیتسا کو اقوام متحدہ کی جانب سے "محفوظ علاقہ” قرار دیا گیا تھا۔ تاہم، جولائی 1995 میں، بوسنیائی سرب فوج کے عناصر نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور اقوام متحدہ کے امن فوجیوں کو بے اثر کر دیا۔ اس کے بعد، ہزاروں بوسنیائی مسلمان مردوں اور لڑکوں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا، ان کے خاندانوں سے الگ کیا گیا اور منظم طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ اس قتل عام کو بین الاقوامی عدالتوں نے نسل کشی قرار دیا ہے۔

یہ صرف ایک فوجی کارروائی نہیں تھی، بلکہ یہ نفرت، تعصب اور انسانیت کے خلاف گہری سازش کا نتیجہ تھا۔ اس سانحے میں سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ تھا کہ یہ سب کچھ اقوام متحدہ کے دستخط شدہ تحفظ کے علاقے میں ہوا، جس نے متاثرین کی مایوسی اور بے بسی میں مزید اضافہ کیا۔

متاثرین کی آوازیں

سربرینیتسا کے زندہ بچ جانے والے افراد آج بھی اس صدمے سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے دلوں میں اپنے پیاروں کی یادیں اور ان کی کھوئی ہوئی زندگیوں کا غم تازہ ہے۔ وہ ابدی سکون کی تلاش میں ہیں، اور یہ سکون انہیں اس وقت ملے گا جب مجرموں کو ان کے کیے کی سزا ملے گی اور انہیں انصاف ملے گا۔ وہ دنیا کو یاد دلاتے ہیں کہ امن اور بقا کے لیے سچائی کا سامنا کرنا کتنا ضروری ہے۔

وہ صرف ذاتی انصاف کے خواہاں نہیں، بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ سربرینیتسا کا سبق فراموش نہ ہو۔ ان کی آوازیں دنیا کے لیے ایک یاد دہانی ہیں کہ نفرت اور عدم برداشت کے نتائج کتنے خوفناک ہو سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کردار اور مستقبل کے لیے اپیل

اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے سربرینیتسا کے سانحے کی مذمت کی ہے اور متاثرین کے ساتھ گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو سربرینیتسا سے سبق سیکھنا چاہیے اور مستقبل میں اس قسم کے واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

  • سچائی کا انکشاف: عہدیداروں نے زور دیا کہ سربرینیتسا کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کی مکمل سچائی کو ہر صورت میں سامنے لایا جائے۔ ماضی کے حقائق کو چھپانا یا مسخ کرنا صرف زخموں کو مزید گہرا کرتا ہے۔
  • انصاف کی فراہمی: یہ بات ضروری ہے کہ جن لوگوں نے اس نسل کشی میں حصہ لیا، انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انصاف کی فراہمی صرف سزا دینے کے لیے نہیں، بلکہ یہ متاثرین کے دکھ کو کم کرنے اور انہیں کچھ سکون فراہم کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔
  • مستقل چوکسی: سب سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا کو سربرینیتسا کے سبق کو یاد رکھنا چاہیے اور نفرت انگیز بیانیے اور تشدد کے خلاف مسلسل چوکسی اختیار کرنی چاہیے۔ اس کے لیے تعلیم، آگاہی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔

سربرینیتسا کا سانحہ انسانیت کے لیے ایک گہرا زخم ہے۔ 30 سال بعد بھی، اس کی یادیں ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ ہمیں امن، انصاف اور انسانی وقار کے لیے کبھی بھی اپنی کوششیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں سربرینیتسا کے متاثرین کی آواز سننی چاہیے اور یہ عہد کرنا چاہیے کہ ایسی ہولناکیاں کبھی دوبارہ نہیں ہوں گی۔


Srebrenica, 30 years on: UN officials and survivors call for truth, justice and vigilance


اے آئی نے خبر فراہم کی ہے۔

مندرجہ ذیل سوال گوگل جیمنی سے جواب حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا:

‘Srebrenica, 30 years on: UN officials and survivors call for truth, justice and vigilance’ Human Rights کے ذریعے 2025-07-08 12:00 بجے شائع ہوا۔ براہ کرم متعلقہ معلومات کے ساتھ ایک تفصیلی مضمون نرم لہجے میں لکھیں۔ براہ کرم اردو میں صرف مضمون کے ساتھ جواب دیں۔

Leave a Comment